ہر آئیڈیا کسی بھی ایجاد میں بیج کی طرح ہوتا ہے ۔ ہر دریافت ،ہر ایجاد، ہر انقلاب، ہر تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی آئیڈیا کارفرما ہو تا ہے ۔ آئیڈیا کسی ایٹم میں پنہاں ایٹمی قوت کی طرح ہوتا ہے، آئیڈیا جتنا طاقت ور ہوگا اس سے جنم لینے والی چیز اتنی ہی کوہ شکن ہوگی ۔ آئیڈیاز دوسرے آئیڈیاز سے ہی جنم لیتے ہیں ۔ نئے آئیڈیاز کے لئے دانشوروں سے ملنا، گفتگو کر نا، بحث کرنا، کتابیں پڑہنا، مطالعہ کرنا، تنہائی میں غوروفکر کرنا، دوسروں کے آئیڈیاز پر تنقید کر نا اور تنقید کو حوصلے کے ساتھ قبول کرنا ، آئیڈیاز کو بیان کر نے کے لئے ہمت ہونا، ہر آئیڈیا کو ضروری سمجھنا اور نوٹ کر لینا، آئیڈیاز کو پرکھنا، یہ سب ضروری عوامل ہیں ۔
کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روزبکریاں چرارہا تھا ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہوگئے تھے ۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی ۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لئے اس کو پیتے تھے ۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645 ئ میں وینس (اٹلی) پہنچی ۔ 1650ئ میں یہ انگلینڈ لائی گئی ۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی (Pasqua Rosee) تھا جس نے لند ن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی ۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا ۔
شطرنج ہندوستان کا کھیل ہے لیکن جیسے یہ آج کل کھیلی جاتی ہے یہ ایران میں ہزاروں سال قبل کھیلی جاتی تھی ۔ ایران سے یہ اندلس پہنچی اور وہاں سے دسویں صدی میں یورپ۔ فارسی میں شاہ مات (بادشاہ ہار گیا)کو انگریزی میں چیک میٹ کہتے ہیں نیز روک (Rookپیادہ )کا لفظ فارسی کے رکھ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ہیں رتھ، سپینش میں اس کوroque کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کو ہاتھی کہتے، عربی میں وہ الفیل ، سپینش میں elـalfil،انگلش میں بشپ ہے ۔
باغات سب سے پہلے مسلمانوں نے بنانے شروع کئے تھے یعنی ایسی خوبصورت جگہ جہاں بیٹھ کر انسان مراقبہ یا غور و فکر کر سکے ۔ یورپ میں شاہی با غات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے ۔ کا رنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں ۔
امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مو?رخ کے مطابق 852ئ میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔875ئ میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی ۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی ۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی ۔
(Dictionary of Scientific Biography, Vol 1, page 5) دنیا کا سب سے پہلا پلینی ٹیریم (Planetarium ) اسلامی سپین کے سائنسداں عباس ابن فرناس (887ئ )نے قرطبہ میں نو یں صدی میں بنا یا تھا ۔ یہ شیشے کا تھا اس میں آسمان کی پر و جیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں، سیاروں، کہکشاو?ں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی ۔ #قدیم یونانی حکمائ کا نظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزر کی طرح) خارج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہم اشیا کو دیکھتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کی وہ دسویں صدی کا عظیم مصری ریاضی داں اور ما ہر طبیعات ابن الہیثم تھا ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کیا ۔ اس نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اند رداخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہوگا پکچر اتنی ہی عمدہ (شارپ ) بنے گی ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ آبسکیورہ (camera obscura ) تیا رکیا ۔ کیمرا کا لفظ کمرے سے اخذ ہے جس کے معنی ہیں خالی یا تاریک کوٹھڑی ۔
دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی ۔ شہرہ آفاق مو?رخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے ۔اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے ۔
خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا ۔ سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے ۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے
(The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page 287) یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ئ ) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی ۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں1525ئ اور برطانیہ میں 1580ئ میں بننا شروع ہوئی تھیں ۔
الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (850ئ ) نے لکھی تھی ۔ اس نے 1ـ9 اور صفر کے اعداد 825ئ میں اپنی شا ہکار کتاب الجبر والقابلہ میں پیش کئے تھے ۔اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے ۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے ۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا ۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفر سے حساب نکالا جائے(process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے ۔
الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے ۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا ۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے ۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا ۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے ۔
مصر کے سائنسداں ابن یو نس (1009ئ )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا ۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی ۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی ۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page 1
ایران کا محقق زکریا الرازی (925ئ ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا ۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی ۔
زکریاالرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہرکر تی ہے ۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاو? کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے ۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ' الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا ۔اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا ۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا ۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا ۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے ۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی ۔
طبیب اعظم زکریاالرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا ۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا ۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا ۔
ابو الحسن طبری دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے خارش کے کیڑوں(itchـmite) کو دریافت کیاتھا
کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سا ئنسداں علائ الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں اس سائنسی مشاہدہ کا انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش گرتی ہے ۔ علم ہئیت میں ابن شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرامغربی سائنسدانوں کے سر با ندھا جا تا ہے جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جا تا ہے ۔
اصطرلاب کا آلہ اگرچہ یونان میں ایجاد ہوا تھا مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال اور اس میں اضافے سب سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ۔ مسلمانوں نے درجنوں قسم کے اصطرلاب بنائے جو ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برطانیہ،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں ۔ لاہورمیں جو اصطرلاب بنائے گئے وہ شکاگو کے ایڈلر میوزیم (Adler) میں راقم الحروف نے خود دیکھے ہیں ۔ اصطرلاب ستاروں کو تلاش کر نے اور ان کا محل وقوع کا تعین کر نے کا آلہ ہے ۔ اس کے ذریعے لوگ صحرا یا سمندر میں راستہ تلاش کر تے تھے نیز اس کے ذریعہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت بھی معلوم کیا جا تا تھا ۔ شہرہ آفاق اسٹرانومرعبد الرحمن الصوفی نے دسویں صدی میں اصطرلاب کے ایک ہزار فوائد گنائے تھے ۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اورشاہکار تصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی ۔ (Age of Faith, Will Durant)۔ کروی اور سلجمی (spherical/parabolic)آئینوں پر اس کی تحقیق بھی اس کا شاندار کارنامہ ہے ۔ اس نے لینس کی میگنی فا ئنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی ۔ اس نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے (curved lenses )بنائے ۔ حدبی عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کر نے کا طریقہ ایجادکیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے ۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (Retina)، کیٹاریکٹ (cataract)، کورنیا(Cornea) جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصہ (پتلی)کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے ۔ لا طینی میں مسور کو لینٹل (lentil)کہتے جو بعد میںLens بن گیا ۔
ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیاجو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لائ آف موشن کا حصہ بنا ۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا ۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ 283)۔
طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے (943ئ ) بغداد میں شروع کیا تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کی تمام اطبائ کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے ۔ کا میاب ہو نے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پر یکٹس کے لئے سرکاری سر ٹیفکیٹ جا ری کئے ۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
مشاہدہ افلاک کے جامع النظر ماہر محمد بن جابرالبتانی (929ئ ) نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو 365دن، 5گھنٹے، اور 24سیکنڈ تھی ۔ اس نے سورج کا مدار بھی معلوم کیا تھا ۔
عبد الر حمن الصوفی (903ـ986 ئ ،ایران) پہلا عالمی ماہر افلاک تھا جس نے 964ئ میں اینڈرو میڈا گیلکسی(M31 andromeda galaxy )کو دریا فت کیا تھا ۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلاتحر یری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا ۔ یہی کہکشاں سا ت سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d1624))نے دسمبر1612 ئ میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریا فت کی تھی ۔ #علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (1037ئ ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا ۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ''القانون'' میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں ۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا ۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے ۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیااور دواو?ں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا ۔ اس نے بتلایا کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا ۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا ۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے ۔
علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتارلا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتارہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویڑن بیان کی ۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں ۔
مسلمانوں کے لئے صفائی نصف ایمان ہے ۔صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیونکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے متعارف کیا جب اس نے 1759ئ میں برائی ٹن (Brighten )کے ساحل پر Mahomed's Indian vapour bath کے نام سے دکان کھولی ۔ بعد میں یہ مسلمان، بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لئے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔
عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیاداں جا بر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی ۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے oxidisation, evaporation, filtration, liquefaction, crystallisation & distillation۔ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نا ئٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔ اس کو ماڈرن کیمسٹری کا با وا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں سرجری کے آلات با لکل وہی ہیں جو دسویں صدی کے جلیل القدر اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی (1013ئ )نے ایجاد کئے تھے ۔ اس نے 200سے زیادہ سرجری کے آلات بنائے تھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: scalpels, bone saws, forceps, fine scissors for eye surgery.۔ وہ پہلا سر جن تھا جس نے کہا کہ گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جا تے ہیں ۔ یہ دریافت اس نے اس لمحہ کی جب اس کے عود کی تار (string) بندر ہڑپ کر گیا ۔اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے ۔ (مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، زکریاورک 2005ئ علی گڑھ،صفحہ 47)
مسلمان اطبائ نے افیون اور الکحل کو بطور (anaesthetics ) کے استعمال کیا تھا ۔ مسلمانوں نے موتیا بند کے آپریشن کیلئے hollow needlesایجاد کیں جو اب بھی استعمال ہو تی ہیں ۔
پن چکی جو اس وقت یورپ اور امریکہ میں اس قدر مقبول عام ہے اور جس کے ذریعہ قدرتی طریق سے بجلی پیدا کی جا تی ہے یہ سب سے پہلے 634ئ میں ایران میں بنائی گئی تھی ۔ اس کے ذریعہ مکئی کو پیسا جا تا اور آب پاشی کے لئے پانی نکا لا جا تا تھا ۔ عرب میں جب ندی نالے خشک ہوجاتے تو ہوا ہی رہ جاتی جو ایک سمت سے کئی مہینوں تک چلتی رہتی تھی ۔ ایرانی پن چکی میں چھ یا بارہ کپڑے کے بنے پنکھے لگے ہوتے تھے ۔ یورپ میں پن چکی اس کے پانچ سو سال بعد دیکھنے میں آئی تھی ۔
دنیا کا پہلا کیمیاداں کوفہ عراق کا جابر ابن حیان (813ئ )تھا ۔وہ قرع انبیق کے آلے کا موجد تھا جس سے اس نے شورے کا تیزاب( نٹرک ایسڈ) بنایا ۔ اس نے نوشادر، گندھک کی مدد سے شورے کے علاوہ گندھک کا تیزاب ایجاد کیا ۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ اس کی ایجادات ہیں ۔
یگانہ روزگار اسحٰق الکندی (866ئ )نے سب سے پہلے Frequency analysisکا آغاز کیا جس سے ماڈرن کر پٹالوجی (cryptology)کی بنیاد پڑی تھی ۔ اس نے باقاعدہ رصد گاہی نظام کی ابتدائ کی تھی ۔
علی ابن نافع (زریاب857ئ ) نویں صدی میں عراق سے ہجرت کر کے اسلامی سپین آیا تھا ۔ یہاں آکر اس نے بہت سے نئی چیزوں کورواج دیا جیسے اس نے کھانے میں تین ڈشوں کو رواج دیا یعنی پہلے سوپ، اس کے بعد مچھلی یا گوشت اور آخر پر فروٹ یا خشک پھل۔ اس نے ہی مشروبات کے لئے کر سٹل گلاس کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے کھانے کی میز پر میز پوش کو رواج دیا ۔ اس نے سپین میں شطرنج اور پولو کا کھیل شروع کیا ۔ اس نے چمڑے کے فر نیچر کو رواج دیا ۔ اس نے کھا نے کے آداب کو رواج دیا ۔ اس نے ہی پر فیوم ، کاسمیٹکس، ٹوتھ برش، اور ٹوتھ پیسٹ کو رواج دیا ۔ اس نے چھوٹے بالوں کے فیشن کو رواج دیا ۔ اس نے دنیا کا سب سے پہلا زیبائش حسن کا مرکز (بیوٹی سیلون) قرطبہ میں کھولا تھا ۔ اس نے گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے کا کہا اور اس کے لئے تاریخ بھی معین کی ۔
قالین مسلمانوں نے سب سے پہلے بنانے شروع کئے تھے ۔ مسلمانوں کی قالین بنانے کی تکنیک (weaving technique ) بہت اعلیٰ قسم کی تھی ۔ مسلمان یہ قالین فرش پر استعمال کرتے تھے جبکہ یورپ میں لوگوں کے گھر وں میں فرش مٹی گارے کے ہوتے تھے ۔یورپ میں ان قا لینوں کے آنے سے گھر کا ماحول بد ل گیا ۔
چیک (cheque ) کا لفظ عربی لفظ سک سے اخذ ہے ۔ جس کے معنی تحریری وعدہ کے ہیں کہ اشیائ کے ملنے پر رقم ادا کر دی جائیگی ۔ بجائے اس کے کہ تاجر رقم اٹھاتا پھرے ۔ عہد وسطیٰ میں چیک کے ذریعہ کہیں بھی مال خریدا جا سکتا تھا ۔ نویں صدی میں کوئی مسلمان تاجر چین میں چیک کیش کر سکتا تھا جو بغداد کے کسی بینک نے جاری کیا ہوتا تھا ۔
البیرونی نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اپنے محور پر بھی ۔ زمین کے گول ہو نے پروہ دیگر سائنسی مشاہدات اور قوانین سے اس قدر مطمئن تھا کہ اس کو کسی مزید دلیل کی ضرورت نہ تھی ۔ (Age of Faith,by Will Durant, page 244)۔ اسلامی سپین کے اسٹرانومر ابن حزم نے زمین کے گول ہونے کی جو دلیل دی وہ یہ تھی: Sun is always vertical to a particular spot on Earth. گیلی لیو کو یہ بات پانچ سوسال بعد سمجھ آئی ۔
ابو اسحق الزرقلی اندلس کا مانا ہوا اسٹرونامیکل آبزرور تھا ۔ الزرقلی نے ایک خاص اصطرلاب الصفیحہ کے نام سے بنا یا جس سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس نے اصطرلاب پر ایک آپر یٹنگ مینوئیل لکھا جس میں اس نے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ آسمانی کرے بیضوی مدار میں گردش کر تے ہیں ۔ یہی انکشاف صدیوں بعد کیپلر نے کیا تھا ۔
مقناطیسی سوئی اگرچہ چین میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کا صحیح مصرف مسلمانوں نے نکالا تھا ۔ مسلمانوں نے جہازرانوں کے لئے آلہ قطب نما (Mariner's compass ) ایجاد کیا ۔ اسی طرح سروے کر نے کے لئے جو آلہ تھیوڈو لائٹ استعمال کیا جا تا ہے وہ بھی مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا ۔ اندلس کے سائنسداں امیہ ابو صلت نے 1134ئ میں ایک حیرت انگیز مشین ایجاد کی جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے بحری جہاز کو سطح آب پر لایا جا سکتا تھا ۔
جب اسلامی دور حکومت دنیا میں اپنے عروج پر تھا تو ایران کے حاتم اسفرازی نے مختلف دھاتوں کا وزن کر نے کے لئے دو اکائیوں کا استعمال شروع کیا یعنی درہم ا ور اوقیہ۔ جب مسلمانوں کے علمی خزانے یورپ منتقل ہوئے تو یہ وزن بھی وہاں پہنچے ۔ رفتہ رفتہ درہم گرام بن گیااور اوقیہ اونس بن گیا ۔
ابو عبد اللہ محمد بن احمد (980ئ ) نے دنیا کا سب سے پہلا انسا ئیکلو پیڈیا 'مفا تح العلوم' ترتیب دیا تھا ۔ اس نے مضامین کی ترتیب کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا اور اپنی ضخیم کتاب کوحروف ابجد کے اصول پر مرتب کیا ۔ یہی اصول آج بھی جد ید انسا ئیکلو پیڈیاز میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
مو تیا بند کا سب سے پہلا آپریشن طبیب حاذق اور امراض چشم کے ماہرابو القاسم عمار موصلی (1005ئ ) نے کیا تھا ۔ امراض چشم پر اس کی کتاب علاج العین کا جرمن ترجمہ 1905ئ میں شائع ہوا تھا ۔ اس نے آپریشن کے لئے خاص قسم کا نازک آلہ ایجاد کیا، آپر یشن کے اصول اور قواعد مرتب کئے اور علاج کا طریقہ بتا یا ۔
زمین کا محور(axis) دیکھنے میں تو بظاہر قطب تارے کی طرح ساکن نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ ساکن نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مدھم رفتار سے دائرے کی صورت میں گردش کر تا ہے ۔ اس حرکت کے بہت خفیف ہونے کے باعث یہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ یہ دریافت مصر کے سا ئنسداں عبد الرحمن ابن یونس (1009 ئ ) نے کی تھی ۔ یہ پیمائش اتنی چھو ٹی ہے کہ اسے معلوم کر لینا ابن یونس کی ہئیت دانی کا کمال تھا ۔ (مسلمان سا ئنسداں اور ان کی خدمات از ابراہیم عمادی ندوی صفحہ 92)
دنیا کا سب سے پہلا فا و?نٹین پین مصر کے سلطان کے لئے 953ئ میں بنایا گیا تھا ۔ ایسا پین جو سلطان کے ہاتھ یا کپڑے دستخط کر تے وقت گندے نہ کرے ۔ اس پین کے اندر روشنائی محفوظ رہتی اور کشش ثقل سے نب تک پہنچتی تھی ۔
مشہور ہئیت داں ابو الوفا بوزجانی (1011ئ ) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے ۔ اس نظریے کے تحت اس نے یہ دریافت کیا کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پڑتا ہے اور اس وجہ سے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہو جا تا ہے ۔ اس کو علم ہئیت کی اصطلاح میں ایوکشن (Evection) یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں ۔ اس نظریے کی تصد یق سولہویں صدی کے یورپ کے ہئیت داں ٹا ئیکو براہی نے کی تھی ۔
ابو الحسن علی احمد نسوی (1030 ئ ) کی اہم دریافت وقت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک نئے طریقے کی ایجاد ہے جسے حساب ستین کہتے ہیں ۔ اس نے وقت کی ایک ساعت یا زاویہ (گھنٹہ) کو 60 پر تقسیم کیا، اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہا جس کے لفظی معنی ہیں خفیف۔ اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا یوں ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ میں ہوگئی ۔ دقیقہ کے لئے انگریزی میں لفظ منٹ وضع ہو گیا جس کے معنی خفیف یا باریک کے ہیں ۔ ثانیہ کے لئے انگریزی میں سیکنڈ کا لفظ بن گیا ۔ گھڑی کے ڈائیل پر جو ہندسے کندہ ہوتے ہیں اور جو منٹ (دقیقہ) اور سیکنڈ (ثانیہ)میں تقسیم ہیں وہ ابو الحسن کی ذہانت کا کرشمہ اوراس کی یاد دلاتے ہیں ۔
البیرونی (1048ئ ) نے زمین کا محیط سب سے پہلے 1018ئ میں جہلم (پنجاب) سے 42میل دور ایک مو ضعہ دھریالہ جلوپ کے 1795فٹ اونچے پہاڑ پر سے سائنسی تجربے کے ذریعہ دریافت کیا تھا جو اس کی تحقیق کے مطابق 24779میل تھا ۔ آج کی تحقیق کے مطابق یہ 24858 میل ہے یعنی صرف 78میل کا فرق۔
یگانہ زمانہ عمر بن خیام (1123ئ )نہ صرف نکتہ آفر یں شاعر بلکہ علم ہئیت اور ریاضی کا بھی ما ہر کامل تھا ۔اس نے ایران میں ایک نیا جلالی کیلنڈر شروع کیا جو جولی این اور گر یگورین کیلنڈروں سے ہزاردرجہ بہتر ہے ۔ اس کیلنڈر کے مطابق 3770 سالوں میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے ۔ لیپ ائیر کا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیا تھا ۔ اہل ایران ان کو دزدیدہ (چرائے ہوئے دن) کہتے ہیں ۔ عمر خیام کا یہ شمسی کیلنڈر آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اس نے ایک سال کی مدت 365.24219858156 نکالی جبکہ کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے ۔
عبد اللہ الادریسی (1166ئ )سسلی کے بادشاہ راجردوم (1154ئ )کا سا ئنسی مشیر تھا ۔ علم جغرافیہ پر اس کی شہرہ آفاق تصنیف کا نام ''نزہتہ المشتاق فی احتراق الآفاق ''ہے ۔ الادریسی نے دنیا کا ایک چاندی کا ماڈل تیار کیا جواس نے قیاس اور تجربے کی بنائ پر گو ل بنا یا ۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا ماڈل تھا ۔ اپنی کتاب میں اس نے دنیا کے ممالک کے ستر سے زیادہ نقشے بھی دیے جو یورپ میں تین سو سال تک رائج رہے ۔کتاب مسلمانوں کے سا ئنسی کارنامے میں اس ماڈل کی ڈایاگرام صفحہ 145 پر موجود ہے ۔
شام کے ملک میں پیدا ہو نے والا با کمال طبیب علائ الدین ابن النفیس القرشی (1289ئ ) پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے ۔ یہ دریافت اس نے ولیم ہاروے (1687ئ )سے چار سوسال قبل کی تھی ۔ اس نے کہا کہ خون وریدی شریان (veinous artery) سے ہو کر گزرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں میں پہنچ کر تازہ ہوا سے ملتا ، اس کے بعد صاف ہوکر پورے جسم میں دورہ کرتا ہے ۔ اس طرح خون جسم کے ہر حصے میں پہنچتا رہتا ہے ۔اس نظرے کو Pulmonary circulation of blood کہا جا تا ہے ۔
لسان الدین ابن الخطیب (1374ئ ) دنیا کا پہلا مایہ ناز طبیب اور محقق تھا جس نے طاعون کا جراثیم کے ذریعہ پھیلنے کا نظریہ پیش کیا ۔ اس نے کہا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی امراض۔ متعدی امراض کے پھیلنے کی وجہ وہ نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر وہ مرض کے کیڑ ے ہو تے ہیں ۔ چودھویں صدی میں یورپ میں چرچ کی حکومت تھی ۔ یورپ میں اس وقت طاعون کا دور دورہ تھا ۔ عیسائیت کے اثر کے تحت عوام الناس طا عون کو خدا کا عذاب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کاکوئی علاج نہیں ہے ۔ مگر طبیب اعظم ابن الخطیب نے اس مرض پر تحقیق کی اور لوگوں کو کہا کہ وہ مریض کے کپڑے، برتن یا کان کی بالیاں ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جو مریض سے نہیں ملتے وہ بیمار نہیں ہوتے اس سے ثابت ہوتا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں بلکہ متعدی بیماری ہے ۔
قلزم انسانیت کا مینارہ ضوبار ابو القاسم الزاہراوی (1013ئ قرطبہ) قرون وسطیٰ کا سب سے عظیم سرجن تھا ۔ سرجری کے موضوع پر اس کی کتاب''التصریف لمن عجز عن التالیف ''ہے ۔ اس میں جراحی کے 200 آلات کی ڈایاگرام دی گئیں ہیں جن میں کئی ایک ابھی تک آپریشن روم میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کتاب میں اس نے کیٹاریکٹ (موتیا بند) کے آپریشن کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ زخموں کو سینے کے لئے اس نے ریشم کا دھاگہ استعمال کیا ۔ اس نے نقلی دانت گائے کی ہڈی سے بنائے ۔ اس کے سات سو سال بعد امریکہ کا صدر جارج واشنگٹن لکڑی کے ڈینچر لگا یا کرتا تھا ۔ یوں اس نے آرتھو ڈینسٹری کی بنیاد رکھی ۔ اس نے کاسمیٹکس میں کئی چیزوں کو شروع کیا جیسے ڈیوڈرنٹ، بال نکالنے کے لئے مو چنا ، ہینڈ لوشن، بالوں کے لئے خضاب، سن ٹین لوشن، بد بودار سانس کے لئے اس نے الائچی اور دھنیے کے پتے چبانے کو کہا ۔ زکام سے نجات پا نے کے لئے اس نے کافور، مشک اور شہد کا ایک مکسچر تیار کیا (امریکہ میں اس کو vapor rub) کہتے ہیں ۔
اسلامی سپین کا جلیل القدر طبیب اور فلاسفر ابن رشد (1198ئ ) دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے آنکھ کے اس پردہ جس میں بصارت کی حس ہوتی یعنی ریٹینا(retina) کا صحیح سائنسی عمل بیان کیاتھا ۔(The retina and not the lens in the eye is the photoـreceptor)۔ ایک اورتہلکہ خیز طبی انکشاف اس نے یہ کیا کہ جس شخص کو ایک بار چیچک ہوجائے پھر وہ اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی ہے ۔
سورج میں سن سپاٹس سب سے پہلے ابن رشد نے دریافت کئے تھے ۔ (سوانح ابن رشد از زکریا ورک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 2006ئ )
یورپ کی سب سے پہلی رصدگاہ اشبیلیہ (اسلامی سپین) کی جامع مسجد کا تین سو فٹ اونچا مینارہ ، گیرالڈا ٹاور(Geralda Tower) تھا جہاں جا بر ابن افلاح (1240ئ ) نے اجرام فلکی کے مشاہدات کئے تھے ۔
اندلس کے شہر اشبیلیہ کا مکین ابو مروان ابن زہر (1162ئ ) دنیا کا سب سے پہلا پیرا سائٹالوجسٹ (Parasitologist ) تھا ۔ اس نے خارش کے کیڑوں (scabies) کو بیان کیا ۔ علاوہ ازیں طب میں اس کی پانچ دریافتیں قابل ذکر ہیں: رسولی(tumors)، درمیانی کان کا التہاب (inflammation of middle ear) التہاب غلاف قلب (pericarditis)، فالج حلقوم (paralysis of pharynx)، قصبة الریہ کی عمل جراحی( Tracheotomy)۔
مایہ ناز مسلمان انجنئیر بد یع الزماں الجزاری نے 1206ئ میں ایک ایسی مشین بنائی جس کے ذریعہ پانی بلندی تک لے جایا جاتا تھا ۔ ماڈرن مشینوں میں کر ینک شافٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس نے پانی کو اوپر لے جا نے کیلئے (یعنی آب پاشی کیلئے) کرینک کنیکٹنگ راڈ سسٹم (Crank connecting rod system) بنایا ۔ اس ایجاد نے ٹیکنالوجی پر دیرپا اثر چھوڑا اور انجنئیرنگ کی فیلڈ میں انقلاب آگیا ۔ یہ سسٹم با ئیسکل میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔ اس نے پانی سے چلنے والے پسٹن پمپ کا بھی ذکر کیا جس میں دو سیلنڈر اور ایک سکشن پائپ تھا ۔ الجزاری نے 1206 ئ علم الحیال یعنی انجنئیرنگ پر جو قاموسی تصنیف (الجامع بین العلم و العمل النافع فی صنعت الحیال ) سپرد قلم کی اس میں والوز اور پسٹن کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے ایک میکنکل کلاک بنائی جو وزن سے چلتی تھی ۔ اس کو فادر آف روباٹکس بھی کہا جا تا ہے ۔ وہ 50 سے زیادہ مشینوں کا موجد تھا ۔کمبی نیشن لاک بھی اس کی ایجاد ہے سا ئنس میوزیم لندن میں ورلڈ آف اسلام کا جو 1976ئ میں فیسٹول منعقد ہوا تھا اس میں الجزاری کی بنائی ہوئی واٹر کلاک کو دوبارہ اس کی ڈایاگرام کے مطابق بنا یا گیا تھا ۔ الجزاری کی کتاب کا انگلش ترجمہ ڈینیل ہل ( Daniel Hill 1974) نے کیا ہے ۔
شام کے محقق اور مو جد حسن الرماہ نے ملٹری ٹیکنالوجی پر ایک شاندار کتاب 1280 ئ میں قلم بند کی جس میں راکٹ کا ڈایا گرام پیش کیا گیا تھا ۔ اس کا ماڈل امریکہ کے نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم، واشنگٹن میں موجود ہے ۔ کتاب میں گن پاو?ڈر بنانے کے اجزائے ترکیبی دیے گئے ہیں ۔ یا د رہے کہ بارود میر فتح اللہ نے ایجاد کیا تھا ۔ پندرھویں صدی میں مسلمانوں نے تارپیڈو بھی بنا یا تھا جس کے آگے نیزہ اور بارود ہو تا تھا ۔ یہ دشمن کے بحری جہاز وں کے پرخچے اڑا دیتا تھا ۔
نابیناو?ں کے لئے پڑھنے کا سسٹم ( بریلBraille) 1824 ئ میں فرانس میں لو ئیس بریل (Braille ) نے ایجاد کیا تھا ۔ اس کے حروف ابجد میں 63 حروف ہوتے ہیں ۔ نا بینا لوگ اپنی انگلیاں ان حروف پر رکھ کر الفاظ بنا لیتے اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں ۔ لیکن اس سسٹم سے چھ سو سال قبل شام کا علی ابن احمد العمیدی (وفات 1314 ئ ) کتابیں پڑھ لیا کر تا تھا حالانکہ وہ بھی نابینا تھا ۔ العمیدی کی انگلیاں super sensitive تھیں ۔ وہ شیلف پر پڑی کتابوں کو ہاتھ لگاکر ان کا نام بتا دیتا تھا، بلکہ کتاب کے کل صفحات بھی بتا دیتا تھا ۔ لائنوں کے درمیان خالی جگہ سے وہ اس کی قیمت فروخت بتا دیتا تھا ۔ حقیقت میں بریل سسٹم کا موجد العمیدی تھا ۔
کولمبس سے پہلے امریکہ کو چین کا مسلمان بحری سیاح زینگ ہی (Zheng He 1371ـ1433 ) دریافت کر چکا تھا ۔ زینگ ہی چین کا سب سے عظیم ایڈمرل تھا ۔ 1405ئ میں وہ اس نیول ایکس پیڈیشن کا سربراہ مقرر ہوا جس نے اگلے 28سالوں (1405ـ33ئ ) میں جہازوں کے سات بیڑوں سے 37 ممالک کا دورہ کیا ۔ اس زمانے میں چین کے پاس سب سے بڑے بحری جہاز ہو تے تھے ۔ زینگ ہی کے بحری بیڑے میں 27000 سپاہی اور 317 بحری جہاز تھے ۔ کو لمبس کا جہاز 85فٹ لمبا جبکہ زینگ ہی کا جہاز 400فٹ لمبا تھا ۔ چین میں اس کے مقبرے کے اوپر اللہ اکبر کندہ ہے ۔
یورپ میں بہت سارے آلات موسیقی فی الحقیقت عرب اور ایرانی آلات کی نقل ہیں ۔ جیسے عود سے Guitar بنا، قانون سے ہارپ Harp بنا، رباب سے فڈلFiddle بنا، نے َسے فلوٹFlute بنی ۔ بکری کی کھال سے بنے ہوئے غا ئیتہ سے بیگ پائپ bagpipe بنا ۔
علم بشریات (انتھروپالوجی) کی سائنس کا آغاز امام المو?رخین عبدالرحمٰن ابن خلدون(1406ئ ) نے کیا تھا ۔
کسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم کا ٹیکہ لگانے کا رواج (innoculate) اسلامی دنیا میں سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا تھا ۔ ترکی میں انگلینڈ کی سفیر کی شریک حیات یہ طریقہ 1724ئ میں استنبول سے لندن لے کرآئی تھی ۔ ترکی میں بچوں کوگائے کی وائرس( cowpox)کے ٹیکے لگائے جاتے تھے تا چیچک سے محفوظ رہ سکیں ۔
کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روزبکریاں چرارہا تھا ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہوگئے تھے ۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی ۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لئے اس کو پیتے تھے ۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645 ئ میں وینس (اٹلی) پہنچی ۔ 1650ئ میں یہ انگلینڈ لائی گئی ۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی (Pasqua Rosee) تھا جس نے لند ن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی ۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا ۔
شطرنج ہندوستان کا کھیل ہے لیکن جیسے یہ آج کل کھیلی جاتی ہے یہ ایران میں ہزاروں سال قبل کھیلی جاتی تھی ۔ ایران سے یہ اندلس پہنچی اور وہاں سے دسویں صدی میں یورپ۔ فارسی میں شاہ مات (بادشاہ ہار گیا)کو انگریزی میں چیک میٹ کہتے ہیں نیز روک (Rookپیادہ )کا لفظ فارسی کے رکھ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ہیں رتھ، سپینش میں اس کوroque کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کو ہاتھی کہتے، عربی میں وہ الفیل ، سپینش میں elـalfil،انگلش میں بشپ ہے ۔
باغات سب سے پہلے مسلمانوں نے بنانے شروع کئے تھے یعنی ایسی خوبصورت جگہ جہاں بیٹھ کر انسان مراقبہ یا غور و فکر کر سکے ۔ یورپ میں شاہی با غات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے ۔ کا رنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں ۔
امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مو?رخ کے مطابق 852ئ میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔875ئ میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی ۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی ۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی ۔
(Dictionary of Scientific Biography, Vol 1, page 5) دنیا کا سب سے پہلا پلینی ٹیریم (Planetarium ) اسلامی سپین کے سائنسداں عباس ابن فرناس (887ئ )نے قرطبہ میں نو یں صدی میں بنا یا تھا ۔ یہ شیشے کا تھا اس میں آسمان کی پر و جیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں، سیاروں، کہکشاو?ں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی ۔ #قدیم یونانی حکمائ کا نظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزر کی طرح) خارج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہم اشیا کو دیکھتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کی وہ دسویں صدی کا عظیم مصری ریاضی داں اور ما ہر طبیعات ابن الہیثم تھا ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کیا ۔ اس نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اند رداخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہوگا پکچر اتنی ہی عمدہ (شارپ ) بنے گی ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ آبسکیورہ (camera obscura ) تیا رکیا ۔ کیمرا کا لفظ کمرے سے اخذ ہے جس کے معنی ہیں خالی یا تاریک کوٹھڑی ۔
دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی ۔ شہرہ آفاق مو?رخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے ۔اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے ۔
خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا ۔ سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے ۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے
(The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page 287) یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ئ ) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی ۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں1525ئ اور برطانیہ میں 1580ئ میں بننا شروع ہوئی تھیں ۔
الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (850ئ ) نے لکھی تھی ۔ اس نے 1ـ9 اور صفر کے اعداد 825ئ میں اپنی شا ہکار کتاب الجبر والقابلہ میں پیش کئے تھے ۔اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے ۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے ۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا ۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفر سے حساب نکالا جائے(process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے ۔
الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے ۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا ۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے ۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا ۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے ۔
مصر کے سائنسداں ابن یو نس (1009ئ )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا ۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی ۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی ۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page 1
ایران کا محقق زکریا الرازی (925ئ ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا ۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی ۔
زکریاالرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہرکر تی ہے ۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاو? کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے ۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ' الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا ۔اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا ۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا ۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا ۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے ۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی ۔
طبیب اعظم زکریاالرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا ۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا ۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا ۔
ابو الحسن طبری دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے خارش کے کیڑوں(itchـmite) کو دریافت کیاتھا
کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سا ئنسداں علائ الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں اس سائنسی مشاہدہ کا انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش گرتی ہے ۔ علم ہئیت میں ابن شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرامغربی سائنسدانوں کے سر با ندھا جا تا ہے جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جا تا ہے ۔
اصطرلاب کا آلہ اگرچہ یونان میں ایجاد ہوا تھا مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال اور اس میں اضافے سب سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ۔ مسلمانوں نے درجنوں قسم کے اصطرلاب بنائے جو ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برطانیہ،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں ۔ لاہورمیں جو اصطرلاب بنائے گئے وہ شکاگو کے ایڈلر میوزیم (Adler) میں راقم الحروف نے خود دیکھے ہیں ۔ اصطرلاب ستاروں کو تلاش کر نے اور ان کا محل وقوع کا تعین کر نے کا آلہ ہے ۔ اس کے ذریعے لوگ صحرا یا سمندر میں راستہ تلاش کر تے تھے نیز اس کے ذریعہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت بھی معلوم کیا جا تا تھا ۔ شہرہ آفاق اسٹرانومرعبد الرحمن الصوفی نے دسویں صدی میں اصطرلاب کے ایک ہزار فوائد گنائے تھے ۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اورشاہکار تصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی ۔ (Age of Faith, Will Durant)۔ کروی اور سلجمی (spherical/parabolic)آئینوں پر اس کی تحقیق بھی اس کا شاندار کارنامہ ہے ۔ اس نے لینس کی میگنی فا ئنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی ۔ اس نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے (curved lenses )بنائے ۔ حدبی عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کر نے کا طریقہ ایجادکیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے ۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (Retina)، کیٹاریکٹ (cataract)، کورنیا(Cornea) جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصہ (پتلی)کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے ۔ لا طینی میں مسور کو لینٹل (lentil)کہتے جو بعد میںLens بن گیا ۔
ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیاجو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لائ آف موشن کا حصہ بنا ۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا ۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ 283)۔
طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے (943ئ ) بغداد میں شروع کیا تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کی تمام اطبائ کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے ۔ کا میاب ہو نے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پر یکٹس کے لئے سرکاری سر ٹیفکیٹ جا ری کئے ۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
مشاہدہ افلاک کے جامع النظر ماہر محمد بن جابرالبتانی (929ئ ) نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو 365دن، 5گھنٹے، اور 24سیکنڈ تھی ۔ اس نے سورج کا مدار بھی معلوم کیا تھا ۔
عبد الر حمن الصوفی (903ـ986 ئ ،ایران) پہلا عالمی ماہر افلاک تھا جس نے 964ئ میں اینڈرو میڈا گیلکسی(M31 andromeda galaxy )کو دریا فت کیا تھا ۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلاتحر یری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا ۔ یہی کہکشاں سا ت سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d1624))نے دسمبر1612 ئ میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریا فت کی تھی ۔ #علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (1037ئ ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا ۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ''القانون'' میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں ۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا ۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے ۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیااور دواو?ں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا ۔ اس نے بتلایا کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا ۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا ۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے ۔
علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتارلا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتارہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویڑن بیان کی ۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں ۔
مسلمانوں کے لئے صفائی نصف ایمان ہے ۔صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیونکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے متعارف کیا جب اس نے 1759ئ میں برائی ٹن (Brighten )کے ساحل پر Mahomed's Indian vapour bath کے نام سے دکان کھولی ۔ بعد میں یہ مسلمان، بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لئے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔
عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیاداں جا بر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی ۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے oxidisation, evaporation, filtration, liquefaction, crystallisation & distillation۔ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نا ئٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔ اس کو ماڈرن کیمسٹری کا با وا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں سرجری کے آلات با لکل وہی ہیں جو دسویں صدی کے جلیل القدر اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی (1013ئ )نے ایجاد کئے تھے ۔ اس نے 200سے زیادہ سرجری کے آلات بنائے تھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: scalpels, bone saws, forceps, fine scissors for eye surgery.۔ وہ پہلا سر جن تھا جس نے کہا کہ گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جا تے ہیں ۔ یہ دریافت اس نے اس لمحہ کی جب اس کے عود کی تار (string) بندر ہڑپ کر گیا ۔اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے ۔ (مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، زکریاورک 2005ئ علی گڑھ،صفحہ 47)
مسلمان اطبائ نے افیون اور الکحل کو بطور (anaesthetics ) کے استعمال کیا تھا ۔ مسلمانوں نے موتیا بند کے آپریشن کیلئے hollow needlesایجاد کیں جو اب بھی استعمال ہو تی ہیں ۔
پن چکی جو اس وقت یورپ اور امریکہ میں اس قدر مقبول عام ہے اور جس کے ذریعہ قدرتی طریق سے بجلی پیدا کی جا تی ہے یہ سب سے پہلے 634ئ میں ایران میں بنائی گئی تھی ۔ اس کے ذریعہ مکئی کو پیسا جا تا اور آب پاشی کے لئے پانی نکا لا جا تا تھا ۔ عرب میں جب ندی نالے خشک ہوجاتے تو ہوا ہی رہ جاتی جو ایک سمت سے کئی مہینوں تک چلتی رہتی تھی ۔ ایرانی پن چکی میں چھ یا بارہ کپڑے کے بنے پنکھے لگے ہوتے تھے ۔ یورپ میں پن چکی اس کے پانچ سو سال بعد دیکھنے میں آئی تھی ۔
دنیا کا پہلا کیمیاداں کوفہ عراق کا جابر ابن حیان (813ئ )تھا ۔وہ قرع انبیق کے آلے کا موجد تھا جس سے اس نے شورے کا تیزاب( نٹرک ایسڈ) بنایا ۔ اس نے نوشادر، گندھک کی مدد سے شورے کے علاوہ گندھک کا تیزاب ایجاد کیا ۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ اس کی ایجادات ہیں ۔
یگانہ روزگار اسحٰق الکندی (866ئ )نے سب سے پہلے Frequency analysisکا آغاز کیا جس سے ماڈرن کر پٹالوجی (cryptology)کی بنیاد پڑی تھی ۔ اس نے باقاعدہ رصد گاہی نظام کی ابتدائ کی تھی ۔
علی ابن نافع (زریاب857ئ ) نویں صدی میں عراق سے ہجرت کر کے اسلامی سپین آیا تھا ۔ یہاں آکر اس نے بہت سے نئی چیزوں کورواج دیا جیسے اس نے کھانے میں تین ڈشوں کو رواج دیا یعنی پہلے سوپ، اس کے بعد مچھلی یا گوشت اور آخر پر فروٹ یا خشک پھل۔ اس نے ہی مشروبات کے لئے کر سٹل گلاس کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے کھانے کی میز پر میز پوش کو رواج دیا ۔ اس نے سپین میں شطرنج اور پولو کا کھیل شروع کیا ۔ اس نے چمڑے کے فر نیچر کو رواج دیا ۔ اس نے کھا نے کے آداب کو رواج دیا ۔ اس نے ہی پر فیوم ، کاسمیٹکس، ٹوتھ برش، اور ٹوتھ پیسٹ کو رواج دیا ۔ اس نے چھوٹے بالوں کے فیشن کو رواج دیا ۔ اس نے دنیا کا سب سے پہلا زیبائش حسن کا مرکز (بیوٹی سیلون) قرطبہ میں کھولا تھا ۔ اس نے گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے کا کہا اور اس کے لئے تاریخ بھی معین کی ۔
قالین مسلمانوں نے سب سے پہلے بنانے شروع کئے تھے ۔ مسلمانوں کی قالین بنانے کی تکنیک (weaving technique ) بہت اعلیٰ قسم کی تھی ۔ مسلمان یہ قالین فرش پر استعمال کرتے تھے جبکہ یورپ میں لوگوں کے گھر وں میں فرش مٹی گارے کے ہوتے تھے ۔یورپ میں ان قا لینوں کے آنے سے گھر کا ماحول بد ل گیا ۔
چیک (cheque ) کا لفظ عربی لفظ سک سے اخذ ہے ۔ جس کے معنی تحریری وعدہ کے ہیں کہ اشیائ کے ملنے پر رقم ادا کر دی جائیگی ۔ بجائے اس کے کہ تاجر رقم اٹھاتا پھرے ۔ عہد وسطیٰ میں چیک کے ذریعہ کہیں بھی مال خریدا جا سکتا تھا ۔ نویں صدی میں کوئی مسلمان تاجر چین میں چیک کیش کر سکتا تھا جو بغداد کے کسی بینک نے جاری کیا ہوتا تھا ۔
البیرونی نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اپنے محور پر بھی ۔ زمین کے گول ہو نے پروہ دیگر سائنسی مشاہدات اور قوانین سے اس قدر مطمئن تھا کہ اس کو کسی مزید دلیل کی ضرورت نہ تھی ۔ (Age of Faith,by Will Durant, page 244)۔ اسلامی سپین کے اسٹرانومر ابن حزم نے زمین کے گول ہونے کی جو دلیل دی وہ یہ تھی: Sun is always vertical to a particular spot on Earth. گیلی لیو کو یہ بات پانچ سوسال بعد سمجھ آئی ۔
ابو اسحق الزرقلی اندلس کا مانا ہوا اسٹرونامیکل آبزرور تھا ۔ الزرقلی نے ایک خاص اصطرلاب الصفیحہ کے نام سے بنا یا جس سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس نے اصطرلاب پر ایک آپر یٹنگ مینوئیل لکھا جس میں اس نے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ آسمانی کرے بیضوی مدار میں گردش کر تے ہیں ۔ یہی انکشاف صدیوں بعد کیپلر نے کیا تھا ۔
مقناطیسی سوئی اگرچہ چین میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کا صحیح مصرف مسلمانوں نے نکالا تھا ۔ مسلمانوں نے جہازرانوں کے لئے آلہ قطب نما (Mariner's compass ) ایجاد کیا ۔ اسی طرح سروے کر نے کے لئے جو آلہ تھیوڈو لائٹ استعمال کیا جا تا ہے وہ بھی مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا ۔ اندلس کے سائنسداں امیہ ابو صلت نے 1134ئ میں ایک حیرت انگیز مشین ایجاد کی جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے بحری جہاز کو سطح آب پر لایا جا سکتا تھا ۔
جب اسلامی دور حکومت دنیا میں اپنے عروج پر تھا تو ایران کے حاتم اسفرازی نے مختلف دھاتوں کا وزن کر نے کے لئے دو اکائیوں کا استعمال شروع کیا یعنی درہم ا ور اوقیہ۔ جب مسلمانوں کے علمی خزانے یورپ منتقل ہوئے تو یہ وزن بھی وہاں پہنچے ۔ رفتہ رفتہ درہم گرام بن گیااور اوقیہ اونس بن گیا ۔
ابو عبد اللہ محمد بن احمد (980ئ ) نے دنیا کا سب سے پہلا انسا ئیکلو پیڈیا 'مفا تح العلوم' ترتیب دیا تھا ۔ اس نے مضامین کی ترتیب کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا اور اپنی ضخیم کتاب کوحروف ابجد کے اصول پر مرتب کیا ۔ یہی اصول آج بھی جد ید انسا ئیکلو پیڈیاز میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
مو تیا بند کا سب سے پہلا آپریشن طبیب حاذق اور امراض چشم کے ماہرابو القاسم عمار موصلی (1005ئ ) نے کیا تھا ۔ امراض چشم پر اس کی کتاب علاج العین کا جرمن ترجمہ 1905ئ میں شائع ہوا تھا ۔ اس نے آپریشن کے لئے خاص قسم کا نازک آلہ ایجاد کیا، آپر یشن کے اصول اور قواعد مرتب کئے اور علاج کا طریقہ بتا یا ۔
زمین کا محور(axis) دیکھنے میں تو بظاہر قطب تارے کی طرح ساکن نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ ساکن نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مدھم رفتار سے دائرے کی صورت میں گردش کر تا ہے ۔ اس حرکت کے بہت خفیف ہونے کے باعث یہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ یہ دریافت مصر کے سا ئنسداں عبد الرحمن ابن یونس (1009 ئ ) نے کی تھی ۔ یہ پیمائش اتنی چھو ٹی ہے کہ اسے معلوم کر لینا ابن یونس کی ہئیت دانی کا کمال تھا ۔ (مسلمان سا ئنسداں اور ان کی خدمات از ابراہیم عمادی ندوی صفحہ 92)
دنیا کا سب سے پہلا فا و?نٹین پین مصر کے سلطان کے لئے 953ئ میں بنایا گیا تھا ۔ ایسا پین جو سلطان کے ہاتھ یا کپڑے دستخط کر تے وقت گندے نہ کرے ۔ اس پین کے اندر روشنائی محفوظ رہتی اور کشش ثقل سے نب تک پہنچتی تھی ۔
مشہور ہئیت داں ابو الوفا بوزجانی (1011ئ ) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے ۔ اس نظریے کے تحت اس نے یہ دریافت کیا کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پڑتا ہے اور اس وجہ سے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہو جا تا ہے ۔ اس کو علم ہئیت کی اصطلاح میں ایوکشن (Evection) یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں ۔ اس نظریے کی تصد یق سولہویں صدی کے یورپ کے ہئیت داں ٹا ئیکو براہی نے کی تھی ۔
ابو الحسن علی احمد نسوی (1030 ئ ) کی اہم دریافت وقت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک نئے طریقے کی ایجاد ہے جسے حساب ستین کہتے ہیں ۔ اس نے وقت کی ایک ساعت یا زاویہ (گھنٹہ) کو 60 پر تقسیم کیا، اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہا جس کے لفظی معنی ہیں خفیف۔ اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا یوں ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ میں ہوگئی ۔ دقیقہ کے لئے انگریزی میں لفظ منٹ وضع ہو گیا جس کے معنی خفیف یا باریک کے ہیں ۔ ثانیہ کے لئے انگریزی میں سیکنڈ کا لفظ بن گیا ۔ گھڑی کے ڈائیل پر جو ہندسے کندہ ہوتے ہیں اور جو منٹ (دقیقہ) اور سیکنڈ (ثانیہ)میں تقسیم ہیں وہ ابو الحسن کی ذہانت کا کرشمہ اوراس کی یاد دلاتے ہیں ۔
البیرونی (1048ئ ) نے زمین کا محیط سب سے پہلے 1018ئ میں جہلم (پنجاب) سے 42میل دور ایک مو ضعہ دھریالہ جلوپ کے 1795فٹ اونچے پہاڑ پر سے سائنسی تجربے کے ذریعہ دریافت کیا تھا جو اس کی تحقیق کے مطابق 24779میل تھا ۔ آج کی تحقیق کے مطابق یہ 24858 میل ہے یعنی صرف 78میل کا فرق۔
یگانہ زمانہ عمر بن خیام (1123ئ )نہ صرف نکتہ آفر یں شاعر بلکہ علم ہئیت اور ریاضی کا بھی ما ہر کامل تھا ۔اس نے ایران میں ایک نیا جلالی کیلنڈر شروع کیا جو جولی این اور گر یگورین کیلنڈروں سے ہزاردرجہ بہتر ہے ۔ اس کیلنڈر کے مطابق 3770 سالوں میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے ۔ لیپ ائیر کا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیا تھا ۔ اہل ایران ان کو دزدیدہ (چرائے ہوئے دن) کہتے ہیں ۔ عمر خیام کا یہ شمسی کیلنڈر آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اس نے ایک سال کی مدت 365.24219858156 نکالی جبکہ کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے ۔
عبد اللہ الادریسی (1166ئ )سسلی کے بادشاہ راجردوم (1154ئ )کا سا ئنسی مشیر تھا ۔ علم جغرافیہ پر اس کی شہرہ آفاق تصنیف کا نام ''نزہتہ المشتاق فی احتراق الآفاق ''ہے ۔ الادریسی نے دنیا کا ایک چاندی کا ماڈل تیار کیا جواس نے قیاس اور تجربے کی بنائ پر گو ل بنا یا ۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا ماڈل تھا ۔ اپنی کتاب میں اس نے دنیا کے ممالک کے ستر سے زیادہ نقشے بھی دیے جو یورپ میں تین سو سال تک رائج رہے ۔کتاب مسلمانوں کے سا ئنسی کارنامے میں اس ماڈل کی ڈایاگرام صفحہ 145 پر موجود ہے ۔
شام کے ملک میں پیدا ہو نے والا با کمال طبیب علائ الدین ابن النفیس القرشی (1289ئ ) پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے ۔ یہ دریافت اس نے ولیم ہاروے (1687ئ )سے چار سوسال قبل کی تھی ۔ اس نے کہا کہ خون وریدی شریان (veinous artery) سے ہو کر گزرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں میں پہنچ کر تازہ ہوا سے ملتا ، اس کے بعد صاف ہوکر پورے جسم میں دورہ کرتا ہے ۔ اس طرح خون جسم کے ہر حصے میں پہنچتا رہتا ہے ۔اس نظرے کو Pulmonary circulation of blood کہا جا تا ہے ۔
لسان الدین ابن الخطیب (1374ئ ) دنیا کا پہلا مایہ ناز طبیب اور محقق تھا جس نے طاعون کا جراثیم کے ذریعہ پھیلنے کا نظریہ پیش کیا ۔ اس نے کہا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی امراض۔ متعدی امراض کے پھیلنے کی وجہ وہ نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر وہ مرض کے کیڑ ے ہو تے ہیں ۔ چودھویں صدی میں یورپ میں چرچ کی حکومت تھی ۔ یورپ میں اس وقت طاعون کا دور دورہ تھا ۔ عیسائیت کے اثر کے تحت عوام الناس طا عون کو خدا کا عذاب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کاکوئی علاج نہیں ہے ۔ مگر طبیب اعظم ابن الخطیب نے اس مرض پر تحقیق کی اور لوگوں کو کہا کہ وہ مریض کے کپڑے، برتن یا کان کی بالیاں ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جو مریض سے نہیں ملتے وہ بیمار نہیں ہوتے اس سے ثابت ہوتا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں بلکہ متعدی بیماری ہے ۔
قلزم انسانیت کا مینارہ ضوبار ابو القاسم الزاہراوی (1013ئ قرطبہ) قرون وسطیٰ کا سب سے عظیم سرجن تھا ۔ سرجری کے موضوع پر اس کی کتاب''التصریف لمن عجز عن التالیف ''ہے ۔ اس میں جراحی کے 200 آلات کی ڈایاگرام دی گئیں ہیں جن میں کئی ایک ابھی تک آپریشن روم میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کتاب میں اس نے کیٹاریکٹ (موتیا بند) کے آپریشن کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ زخموں کو سینے کے لئے اس نے ریشم کا دھاگہ استعمال کیا ۔ اس نے نقلی دانت گائے کی ہڈی سے بنائے ۔ اس کے سات سو سال بعد امریکہ کا صدر جارج واشنگٹن لکڑی کے ڈینچر لگا یا کرتا تھا ۔ یوں اس نے آرتھو ڈینسٹری کی بنیاد رکھی ۔ اس نے کاسمیٹکس میں کئی چیزوں کو شروع کیا جیسے ڈیوڈرنٹ، بال نکالنے کے لئے مو چنا ، ہینڈ لوشن، بالوں کے لئے خضاب، سن ٹین لوشن، بد بودار سانس کے لئے اس نے الائچی اور دھنیے کے پتے چبانے کو کہا ۔ زکام سے نجات پا نے کے لئے اس نے کافور، مشک اور شہد کا ایک مکسچر تیار کیا (امریکہ میں اس کو vapor rub) کہتے ہیں ۔
اسلامی سپین کا جلیل القدر طبیب اور فلاسفر ابن رشد (1198ئ ) دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے آنکھ کے اس پردہ جس میں بصارت کی حس ہوتی یعنی ریٹینا(retina) کا صحیح سائنسی عمل بیان کیاتھا ۔(The retina and not the lens in the eye is the photoـreceptor)۔ ایک اورتہلکہ خیز طبی انکشاف اس نے یہ کیا کہ جس شخص کو ایک بار چیچک ہوجائے پھر وہ اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی ہے ۔
سورج میں سن سپاٹس سب سے پہلے ابن رشد نے دریافت کئے تھے ۔ (سوانح ابن رشد از زکریا ورک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 2006ئ )
یورپ کی سب سے پہلی رصدگاہ اشبیلیہ (اسلامی سپین) کی جامع مسجد کا تین سو فٹ اونچا مینارہ ، گیرالڈا ٹاور(Geralda Tower) تھا جہاں جا بر ابن افلاح (1240ئ ) نے اجرام فلکی کے مشاہدات کئے تھے ۔
اندلس کے شہر اشبیلیہ کا مکین ابو مروان ابن زہر (1162ئ ) دنیا کا سب سے پہلا پیرا سائٹالوجسٹ (Parasitologist ) تھا ۔ اس نے خارش کے کیڑوں (scabies) کو بیان کیا ۔ علاوہ ازیں طب میں اس کی پانچ دریافتیں قابل ذکر ہیں: رسولی(tumors)، درمیانی کان کا التہاب (inflammation of middle ear) التہاب غلاف قلب (pericarditis)، فالج حلقوم (paralysis of pharynx)، قصبة الریہ کی عمل جراحی( Tracheotomy)۔
مایہ ناز مسلمان انجنئیر بد یع الزماں الجزاری نے 1206ئ میں ایک ایسی مشین بنائی جس کے ذریعہ پانی بلندی تک لے جایا جاتا تھا ۔ ماڈرن مشینوں میں کر ینک شافٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس نے پانی کو اوپر لے جا نے کیلئے (یعنی آب پاشی کیلئے) کرینک کنیکٹنگ راڈ سسٹم (Crank connecting rod system) بنایا ۔ اس ایجاد نے ٹیکنالوجی پر دیرپا اثر چھوڑا اور انجنئیرنگ کی فیلڈ میں انقلاب آگیا ۔ یہ سسٹم با ئیسکل میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔ اس نے پانی سے چلنے والے پسٹن پمپ کا بھی ذکر کیا جس میں دو سیلنڈر اور ایک سکشن پائپ تھا ۔ الجزاری نے 1206 ئ علم الحیال یعنی انجنئیرنگ پر جو قاموسی تصنیف (الجامع بین العلم و العمل النافع فی صنعت الحیال ) سپرد قلم کی اس میں والوز اور پسٹن کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے ایک میکنکل کلاک بنائی جو وزن سے چلتی تھی ۔ اس کو فادر آف روباٹکس بھی کہا جا تا ہے ۔ وہ 50 سے زیادہ مشینوں کا موجد تھا ۔کمبی نیشن لاک بھی اس کی ایجاد ہے سا ئنس میوزیم لندن میں ورلڈ آف اسلام کا جو 1976ئ میں فیسٹول منعقد ہوا تھا اس میں الجزاری کی بنائی ہوئی واٹر کلاک کو دوبارہ اس کی ڈایاگرام کے مطابق بنا یا گیا تھا ۔ الجزاری کی کتاب کا انگلش ترجمہ ڈینیل ہل ( Daniel Hill 1974) نے کیا ہے ۔
شام کے محقق اور مو جد حسن الرماہ نے ملٹری ٹیکنالوجی پر ایک شاندار کتاب 1280 ئ میں قلم بند کی جس میں راکٹ کا ڈایا گرام پیش کیا گیا تھا ۔ اس کا ماڈل امریکہ کے نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم، واشنگٹن میں موجود ہے ۔ کتاب میں گن پاو?ڈر بنانے کے اجزائے ترکیبی دیے گئے ہیں ۔ یا د رہے کہ بارود میر فتح اللہ نے ایجاد کیا تھا ۔ پندرھویں صدی میں مسلمانوں نے تارپیڈو بھی بنا یا تھا جس کے آگے نیزہ اور بارود ہو تا تھا ۔ یہ دشمن کے بحری جہاز وں کے پرخچے اڑا دیتا تھا ۔
نابیناو?ں کے لئے پڑھنے کا سسٹم ( بریلBraille) 1824 ئ میں فرانس میں لو ئیس بریل (Braille ) نے ایجاد کیا تھا ۔ اس کے حروف ابجد میں 63 حروف ہوتے ہیں ۔ نا بینا لوگ اپنی انگلیاں ان حروف پر رکھ کر الفاظ بنا لیتے اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں ۔ لیکن اس سسٹم سے چھ سو سال قبل شام کا علی ابن احمد العمیدی (وفات 1314 ئ ) کتابیں پڑھ لیا کر تا تھا حالانکہ وہ بھی نابینا تھا ۔ العمیدی کی انگلیاں super sensitive تھیں ۔ وہ شیلف پر پڑی کتابوں کو ہاتھ لگاکر ان کا نام بتا دیتا تھا، بلکہ کتاب کے کل صفحات بھی بتا دیتا تھا ۔ لائنوں کے درمیان خالی جگہ سے وہ اس کی قیمت فروخت بتا دیتا تھا ۔ حقیقت میں بریل سسٹم کا موجد العمیدی تھا ۔
کولمبس سے پہلے امریکہ کو چین کا مسلمان بحری سیاح زینگ ہی (Zheng He 1371ـ1433 ) دریافت کر چکا تھا ۔ زینگ ہی چین کا سب سے عظیم ایڈمرل تھا ۔ 1405ئ میں وہ اس نیول ایکس پیڈیشن کا سربراہ مقرر ہوا جس نے اگلے 28سالوں (1405ـ33ئ ) میں جہازوں کے سات بیڑوں سے 37 ممالک کا دورہ کیا ۔ اس زمانے میں چین کے پاس سب سے بڑے بحری جہاز ہو تے تھے ۔ زینگ ہی کے بحری بیڑے میں 27000 سپاہی اور 317 بحری جہاز تھے ۔ کو لمبس کا جہاز 85فٹ لمبا جبکہ زینگ ہی کا جہاز 400فٹ لمبا تھا ۔ چین میں اس کے مقبرے کے اوپر اللہ اکبر کندہ ہے ۔
یورپ میں بہت سارے آلات موسیقی فی الحقیقت عرب اور ایرانی آلات کی نقل ہیں ۔ جیسے عود سے Guitar بنا، قانون سے ہارپ Harp بنا، رباب سے فڈلFiddle بنا، نے َسے فلوٹFlute بنی ۔ بکری کی کھال سے بنے ہوئے غا ئیتہ سے بیگ پائپ bagpipe بنا ۔
علم بشریات (انتھروپالوجی) کی سائنس کا آغاز امام المو?رخین عبدالرحمٰن ابن خلدون(1406ئ ) نے کیا تھا ۔
کسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم کا ٹیکہ لگانے کا رواج (innoculate) اسلامی دنیا میں سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا تھا ۔ ترکی میں انگلینڈ کی سفیر کی شریک حیات یہ طریقہ 1724ئ میں استنبول سے لندن لے کرآئی تھی ۔ ترکی میں بچوں کوگائے کی وائرس( cowpox)کے ٹیکے لگائے جاتے تھے تا چیچک سے محفوظ رہ سکیں ۔
Abu Nasr Al-Farabi (872 – 950)

Abu Nasr Muhammad al- Farabi, one the earliest Islamic intellectuals who were instrumental in transmitting the doctrines of Plato and Aristotle to the Muslim world, had a considerable influence on the later Islamic philosophers such as Avicenna.
He was an outstanding linguist who translated the Greek works on Aristotle and Plato and made a considerable additions to them of his own.
He earned the nickname Mallim-e-Sani, which is translated as “second master” or “second teacher”.
Early Life:
Al-Farabi completed his earlier education at Farab and Bukhara but, later on, he went to Baghdad for higher studies, where he studied and worked for a long time. During this period he acquired mastery over several languages as well as various branches of knowledge and technology. Farabi contributed considerably to science, philosophy, logic, sociology, medicine, mathematics and music, but the major ones are in philosophy, logic and sociology and for which he stands out as an Encyclopedist.
Contributions and Achievements:
As a philosopher, Farabi was the first to separate philosophy from theology. It is difficult to find a philosopher both in Muslim and Christian world from Middle Ages onwards who has not been influenced by his views. He believed in a Supreme Being who had created the world through the exercise of balanced intelligence. He also asserted this same rational faculty to be the sole part of the human being that is immortal, and thus he set as the paramount human goal the development of that rational faculty. He considerably gave more attention to political theory as compared to any Islamic philosopher.
Later in his work, Al-Farabi laid down in Platonic fashion the qualities necessary for the ruler, he should be inclined to rule by good quality of a native character and exhibit the right attitude for such rule. At the heart of Al-Farabi’s political philosophy is the concept of happiness in which people cooperate to gain contentment. He followed the Greek example and the highest rank of happiness was allocated to his ideal sovereign whose soul was ‘united as it were with the Active Intellect’. Therefore Farabi served as a tremendous source of aspiration for intellectuals of the middle ages and made enormous contributions to the knowledge of his day, paving the way for the later philosopher and thinkers of the Muslim world.
Farabian epistemology has both a Neoplatonic and an Aristotelian dimension. The best source for al-Farabi’s classification of knowledge is his Kitab ihsa al-ulum. This work neatly illustrates Al-Farabi’s beliefs, both esoteric and exoteric. Through all of them runs a primary Aristotelian stress on the importance of knowledge. Thus al-Farabi’s epistemology, from what has been described may be said to be encyclopedic in range and complex in articulation, using both a Neoplatonic and an Aristotelian voice.
Farabi also participated in writing books on early Muslim sociology and a notable book on music titled Kitab al-Musiqa (The Book of Music) which is in reality a study of the theory of Persian music of his day, although in the West it has been introduced as a book on Arab music. He invented several musical instruments, besides contributing to the knowledge of musical notes. It has been reported that he could play his instrument so well as to make people laugh or weep at will. Al-Farabi’s treatise Meanings of the Intellect dealt with music therapy, where he discussed the therapeutic effects of music on the soul.
Later Life:
Farabi traveled to many distant lands throughout his life and gained many experiences a lot, due to which he made so many contributions for which he is still remembered and acknowledged. Inspite of facing many hardships, he worked with full dedication and made his name among the popular scientists of history. He died a bachelor in Damascus in 339 A.H. /950 A.D. at the age of 80 years.
Al-Battani (858 – 929)
Al-Battani

Also known as Albatenius. Arab mathematician, scientists and astronomer who improved existing values for the length of the year and of the seasons.
Al-Battani is sometimes known by a Latinized version of his name, being Albategnius, Albategni or Albatenius. His full name was Abu Abdallah Mohammad ibn Jabir ibn Sinan al-Raqqi al-Harrani al-Sabi al-Battani.
Al-Battani’s father was Jabir ibn Sinan al-Harrani who had a high reputation as an instrument maker in Harran. The name makes the identification certain that al-Battani himself was skilled in making astronomical instruments and there is a good indication that he learnt these skills from his father.
Early Life and Career:
Abdallah Muhammad Ibn Jabir Ibn Sinan al-Battani al-Harrani was born around 858 C.E. in Harran. Battani was first educated by his father Jabir Ibn San’an al-Battani, who also was a well-known scientist. He then moved to Raqqa, situated on the bank of the Euphrates, where he received advanced education and later on flourished as a scholar. At the beginning of the 9th century, he migrated to Samarra, where he worked till the end of his life. His family had been members of the Sabian sect, a religious sect of star worshippers from Harran. Being worshipers of the stars meant that the Sabians had a strong motivation for the study of astronomy. Al-Battani, unlike Thabit, another mathematician from his home town, was not a believer in the Sabian religion. His name “Abu Abdallah Mohammad” indicates that he was certainly a Muslim.
Al-Battani made remarkably accurate astronomical observations at Antioch and ar-Raqqah in Syria. The town of ar-Raqqah, where most of al-Battani’s observations were made, became prosperous when Caliph Harun al-Rashid built several palaces there.
The Fihrist describes al-Battani as one of the most famous observers and a leader in geometry, theoretical and practical astronomy, and astrology. He composed work on astronomy, with tables, containing his own observations of the sun and moon and a more accurate description of their motions than that given in Ptolemy’s “Almagest”.
The main achievements of al-Battani’s are:
• He cataloged 489 stars.
• He refined the existing values for the length of the year, which he gave as 365 days 5 hours 46 minutes 24 seconds, and of the seasons.
• He calculated 54.5″ per year for the precession of the equinoxes and obtained the value of 23° 35′ for the inclination of the ecliptic.
Rather than using geometrical methods, as other scientists had done, al-Battani used trigonometric methods which were an important advancement. Al-Battani showed that the farthest distance of the Sun from the Earth varies and, as a result, annular eclipses of the Sun are possible as well as total eclipses. Al-Battani is important in the development of science for a number of reasons, but one of these must be the large influence his work had on scientists such as Tycho Brahe, Kepler, Galileo and Copernicus.
Death:
Historians all agree that Al-Battani passed away in 317 H. /929 A.D., near the city of Moussul in Iraq. He was regarded as one of the most famous Arab astronomers. He dedicated all his life until his death to the observation of planets and stars.
Ibn Sina (980 – 1037)
Ibn Sina
Also known as Avicenna. Persian philosopher and scientist known for his contributions to Aristotelian philosophy and medicine.
Also popularly known as ‘Avicenna’, Ibn Sina was indeed a true polymath with his contributions ranging from medicine, psychology and pharmacology to geology, physics, astronomy, chemistry and philosophy. He was also a poet and an Islamic scholar and theologian. His most important contribution to medical science was his famous book al-Qanun, known as the “Canon” in the West. This book is an immense encyclopedia of medicine including over a million words and like most Arabic books is richly divided and subdivided. It comprises of the entire medical knowledge available from ancient and Muslim sources.
Early Life:
This great scientist was born in around 980 A.D in the village of Afshana, near Bukhara which is also his mother’s hometown. His father, Abdullah an advocate of the Ismaili sect, was from Balkh which is now a part of Afghanistan. Ibn Sina received his early eduction in his home town and by the age of ten he became a Quran Hafiz. He had exceptional intellectual skills which enabled him to overtake his teachers at the age of fourteen. During the next few years he devoted himself to Muslim Jurisprudence, Philosophy and Natural Science and studied Logic, Euclid, and the Almeagest.
Ibn Sina was an extremely religious man. When he was still young, Ibn Sina was highly baffled by the work of Aristotle on Metaphysics so much so that he used to leave all the work and pray to God to guide him. Finally after reading a manual by a famous philosopher al-Farabi, he found the solutions to his difficulties.
Contributions and Achievements:
At the age of sixteen he dedicated all his efforts to learn medicine and by the time he was eighteen gained the status of a reputed physician. During this time he was also lucky in curing Nooh Ibn Mansoor, the King of Bukhhara, of an illness in which all the renowned physicians had given up hope. On this great effort, the King wished to reward him, but the young physician only acquired consent to use his exclusively stocked library of the Samanids.
On his father’s death, when Ibn Sina was twenty-two years old, he left Bukhara and moved to Jurjan near Caspian Sea where he lectured on logic and astronomy. Here he also met his famous contemporary Abu Raihan al-Biruni. Later he travelled to Rai and then to Hamadan, where he wrote his famous book Al-Qanun fi al-Tibb. Here he also cured Shams al-Daulah, the King of Hamadan, for severe colic.
From Hamadan, he moved to Isfahn, where he finished many of his epic writings. Nevertheless, he continued to travel and the too much mental exertion as well as political chaos spoilt his health. The last ten or twelve years of his life, he spent in the service of Abu Ja’far ‘Ala Addaula, whom he accompanied as physician and general literary and scientific consultant. He died during June 1037 A.D and was buried in Hamedan, Iran.
Besides his monumental writings, Ibn Sina also contributed to mathematics, physics, music and other fields. He explained the concept and application of the “casting out of nines”. He made several astronomical observations, and devised a means similar to the venire, to enhance the accuracy of instrumental readings. In physics, his contribution comprised the study of different forms of energy, heat, light and mechanical, and such concepts as force, vacuum and infinity.
Ibn Battuta (1304 – 1369)
Ibn Battuta
Also known as Shams ad–Din. Arab traveler and scholar who wrote one of the most famous travel books in history, the Rihlah.
Abu Abdullah Muhammad Ibn Battuta, was a Moroccan Muslim scholar and traveler. He is known for his traveling and going on excursions called the Rihla. His journeys lasted for a period of almost thirty years. This covered nearly the whole of the known Islamic world and beyond, extending from North Africa, West Africa, Southern Europe and Eastern Europe in the West, to the Middle East, Indian subcontinent, Central Asia, Southeast Asia and China in the East, a distance readily surpassing that of his predecessors. After his travel he returned to Morocco and gave his account of the experience to Ibn Juzay.
Early life and Career:
Abu Abdullah Muhammad Ibn Battuta, was born in Tangier, Morocco, on the 24th of February 1304 C.E. (703 Hijra) during the time of the Marinid dynasty. He was commonly known as Shams ad-Din. His family was of Berber origin and had a tradition of service as judges. After receiving an education in Islamic law, he chose to travel. He left is house in June 1325, when he was twenty one years of age and set off from his hometown on a hajj (pilgrimage) to Mecca, a journey that took him 16 months. He did not come back to Morocco for at least 24 years after that. His journey was mostly by land. To reduce the risk of being attacked, he usually chose to join a caravan. In the town of Sfax, he got married. He survived wars, shipwrecks, and rebellions.
He first began his voyage by exploring the lands of the Middle East. Thereafter he sailed down the Red Sea to Mecca. He crossed the huge Arabian Desert and traveled to Iraq and Iran. In 1330, he set of again, down the Red Sea to Aden and then to Tanzania. Then in 1332, Ibn Battuta decided to go to India. He was greeted open heartedly by the Sultan of Delhi. There he was given the job of a judge. He stayed in India for a period of 8 years and then left for China. Ibn Battuta left for another adventure in 1352. He then went south, crossed the Sahara desert, and visited the African kingdom of Mali.
Finally, he returned home at Tangier in 1355. Those who were lodging Ibn Battuta’s grave Western Orient lists could not believe that Ibn Battuta visited all the places that he described. They argued that in order to provide a comprehensive description of places in the Muslim world in such a short time, Ibn Battuta had to rely on hearsay evidence and make use of accounts by earlier travelers.
Ibn Battuta often experienced culture shock in regions he visited. The local customs of recently converted people did not fit his orthodox Muslim background. Among Turks and Mongols, he was astonished at the way women behaved. They were given freedom of speech. He also felt that the dress customs in the Maldives and some sub-Saharan regions in Africa were too revealing.
Death:
After the completion of the Rihla in 1355, little is known about Ibn Battuta’s life. He was appointed a judge in Morocco and died in 1368. Nevertheless, the Rihla provides an important account of many areas of the world in the 14th century.
Ibn Rushd (1126 – 1198)
Ibn Rushd

Also known as Averroes. Arab philosopher and scholar who produced a series of summaries and commentaries on most of Aristotle’s works and on Plato’s Republic.
Early Life:
Abu Walid Mohammad Ibn Rushd born in 1128 C.E. in Cordova has been held as one of the greatest thinkers and scientists of the history. A product of twelfth-century Islamic Spain, he set out to integrate Aristotelian philosophy with Islamic thought. A common theme throughout his writings is that there is no inappropriateness between religion and philosophy when both are properly understood.
His contributions to philosophy took many forms, ranging from his detailed commentaries on Aristotle, his defence of philosophy against the attacks of those who condemned it as different to Islam and his construction of a form of Aristotelianism which cleansed it, as far as was possible at the time, of, Neoplatonic influences.
Contributions and Achievements:
Ibn Rushd’s education followed a traditional path, beginning with studies in Hadith, linguistics, jurisprudence and scholastic theology. Throughout his life he wrote extensively on Philosophy and Religion, attributes of God, origin of the universe, Metaphysics and Psychology but he excelled in philosophy and jurisprudence and was nicknamed “the jurisprudent philosopher.” The role of the philosopher in the state was a topic of continual interest for Ibn Rushd.
His thought is genuinely creative and highly controversial, producing powerful arguments that were to puzzle his philosophical successors in the Jewish and Christian worlds. He seems to argue that there are two forms of truth, a religious form and a philosophical form, and that it does not matter if they point in different directions. He also appears to be doubtful about the possibility of personal immortality or of God’s being able to know that particular events have taken place. There is much in his work also which suggests that religion is inferior to philosophy as a means of attaining knowledge, and that the understanding of religion which ordinary believers can have is very different and impoverished when compared with that available to the philosopher.
In philosophy, his most important work Tuhafut al-Tuhafut was written in response to Al-Ghazali’s work. Ibn Rushd was criticized by many Muslim scholars for this book, which, nevertheless, had a deep influence on European thought, at least until the beginning of modern philosophy and experimental science. His views on fate were that man is neither in full control of his destiny nor is it fully predetermined for him. Al Rushd’s longest commentary was, in fact, an original contribution as it was largely based on his analysis including interpretation of Quranic concepts. Ibn Rushd’s summary the opinions (fatwa) of previous Islamic jurists on a variety of issues has continued to influence Islamic scholars to the present day, notably Javed Ahmad Ghamidi.
At the age of 25, Ibn Rushd conducted astronomical observations in Morocco, during which he discovered a previously unobserved star. He was also of the view that the Moon is opaque and obscure, and has some parts which are thicker than others, with the thicker parts receiving more light from the Sun than the thinner parts of the Moon. He also gave one of the first descriptions on sunspots.
Ibn Rushd also made remarkable contributions in medicine. In medicine his well-known book Kitab al-Kulyat fi al-Tibb was written before 1162 A.D Its Latin translation was known as ‘Colliget’. In it Ibn Rushd has thrown light on various aspects of medicine, including the diagnoses, cure and prevention of diseases and several original observations of him.
He wrote at least 67 original works, which included 28 works on philosophy, 20 on medicine, 8 on law, 5 on theology, and 4 on grammar, in addition to his commentaries on most of Aristotle’s works and his commentary on Plato’s The Republic. A careful examination of his works reveals that Ibn Rushd (Averroes) was a deeply Islamic man. As an example, we find in his writing, “Anyone who studies anatomy will increase his faith in the omnipotence and oneness of God the Almighty”. He believed that true happiness for man can surely be achieved through mental and psychological health, and people cannot enjoy psychological health unless they follow ways that lead to happiness in the hereafter, and unless they believe in God and His oneness.
Death:
Ibn Rushd died in Marakesh in 1198 where he was buried. Three months later, his body was moved to Qurtuba, the tribune of his thought. It leaves no room for any doubt about the important influence that the Muslim Philosopher had on the greatest of all Catholic theologians.
Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi (780 – 850)
Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi

Also known as Algoritmi or Algaurizin. His works introduced Hindu-Arabic numerals and the concepts of algebra into European mathematics.
Early Life:
Muhammad ibn Musa al-Khwarizmi was a Persian mathematician, astronomer, astrologer geographer and a scholar in the House of Wisdom in Baghdad. He was born in Persia of that time around 780. Al-Khwarizmi was one of the learned men who worked in the House of Wisdom. Al-Khwarizmi flourished while working as a member of the House of Wisdom in Baghdad under the leadership of Kalif al-Mamun, the son of the Khalif Harun al-Rashid, who was made famous in the Arabian Nights. The House of Wisdom was a scientific research and teaching center.
Contributions and Achievements:
Al-Khwarizmi developed the concept of the algorithm in mathematics (which is a reason for his being called the grandfather of computer science by some people).
Al-Khwarizmi’s algebra is regarded as the foundation and cornerstone of the sciences. To al-Khwarizmi we owe the world “algebra,” from the title of his greatest mathematical work, Hisab al-Jabr wa-al-Muqabala. The book, which was twice translated into Latin, by both Gerard of Cremona and Robert of Chester in the 12th century, works out several hundred simple quadratic equations by analysis as well as by geometrical example. It also has substantial sections on methods of dividing up inheritances and surveying plots of land. It is largely concerned with methods for solving practical computational problems rather than algebra as the term is now understood.
Al-Khwarizmi confined his discussion to equations of the first and second degrees. He also wrote an important work on astronomy, covering calendars, calculating true positions of the sun, moon and planets, tables of sines and tangents, spherical astronomy, astrological tables, parallax and eclipse calculations, and visibility of the moon. His astronomical work, Zij al-sindhind, is also based on the work of other scientists. As with the Algebra, its chief interest is as the earliest Arab work still in existence in Arabic.
His most recognized work as mentioned above and one that is so named after him is the mathematical concept Algorithm. The modern meaning of the word relates to a specific practice for solving a particular problem. Today, people use algorithms to do addition and long division, principles that are found in Al-Khwarizmi’s text written about 1200 years ago. Al-Khwarizmi was also responsible for introducing the Arabic numbers to the West, setting in motion a process that led to the use of the nine Arabic numerals, together with the zero sign.
Of great importance also was al-Khwarizmi’s contribution to medieval geography. He systematized and corrected Ptolemy’s research in geography, using his own original findings that are entitled as Surat al-Ard (The Shape of the Earth). The text exists in a manuscript; the maps have unfortunately not been preserved, although modern scholars have been able to reconstruct them from al-Khwarizmi’s descriptions. He supervised the work of 70 geographers to create a map of the then “known world”. When his work became known in Europe through Latin translations, his influence made a permanent mark on the development of science in the West.
Al-Khwarizmi made several important improvements to the theory and construction of sundials, which he inherited from his Indian and Hellenistic predecessors. He made tables for these instruments which considerably shortened the time needed to make specific calculations. His sundial was universal and could be observed from anywhere on the Earth. From then on, sundials were frequently placed on mosques to determine the time of prayer. The shadow square, an instrument used to determine the linear height of an object, in conjunction with the alidade for angular observations, was also invented by al-Khwarizmi in ninth-century Baghdad.
While his major contributions were the result of original research, he also did much to synthesize the existing knowledge in these fields from Greek, Indian, and other sources. A number of minor works were written by al-Khwarizmi on topics such as the astrolabe, on which he wrote on the Jewish calendar. He also wrote a political history containing horoscopes of prominent persons.
Death:
Muhammad ibn Musa al-Khwarizmi died in c. 850 being remembered as one of the most seminal scientific minds of early Islamic culture.
Omar Khayyam (1048 – 1131)
Omar Khayyam

Persian mathematician, astronomer, and poet, known for his scientific achievements and Rubaiyat (“quatrains”).
Omar Khayyam was one of the major mathematicians and astronomers of the medieval period. He was acknowledged as the author of the most important treatise on algebra before modern times. This is reflected in his Treatise on Demonstration of Problems of Algebra giving a geometric method for solving cubic equations by intersecting a hyperbola with a circle. His significance as a philosopher and teacher, and his few remaining philosophical works, has not received the same attention as his scientific and poetic writings.
Early life and Career:
Omar Khayyam was born on the 18th of May, 1048 AD in Iran. Omar Khayyam’s full name was Ghiyath al-Din Abu’l-Fath Umar Ibn Ibrahim Al-Nisaburi al-Khayyami. He was born into a family of tent makers. He spent part of his childhood in the town of Balkh, northern Afghanistan, studying under Sheik Muhammad Mansuri. Later on, he studied under Imam Mowaffaq Nishapuri, who was considered one of the greatest teachers of the Khorassan region. Khayyam had notable works in geometry, particularly on the theory of proportions.
He was a Persian polymath, mathematician, philosopher, astronomer, physician, and poet. He wrote treatises on mechanics, geography, and music. The treatise of Khayyam can be considered as the first treatment of parallels axiom which is not based on petition principle but on more intuitive postulate. Khayyam refutes the previous attempts by other Greek and Persian mathematicians to prove the proposition. And he refused the use of motion in geometry.
Khayyam was the mathematician who noticed the importance of a general binomial theorem. The argument supporting the claim that Khayyam had a general binomial theorem is based on his ability to extract roots. Khayyam was part of a panel that introduced several reforms to the Persian calendar. On March 15, 1079, Sultan Malik Shah, accepted this corrected calendar as the official Persian calendar.
Khayyam’s poetic work has eclipsed his fame as a mathematician. He has written about a thousand four-line verses or quatrains. In the English-speaking world, he was introduced through the Rubáiyát of Omar Khayyam which are rather free-wheeling English translations by Edward FitzGerald (1809-1883). Khayyam’s personal beliefs are discernible from his poetic oeuvre. In his own writings, Khayyam rejects strict religious structure and a literalist conception of the afterlife.
Khayyam taught for decades the philosophy of Avicenna, especially in his home town Nishapur, till his death. Khayyam, the philosopher can be understood from two rather distinct sources. One is through his Rubaiyat and the other through his own works in light of the intellectual and social conditions of his time. The latter could be informed by the evaluations of Khayyam’s works by scholars and philosophers such as Bayhaqi, Nezami Aruzi, and Zamakhshari and Sufi poets and writers Attar Nishapuri and Najmeddin Razi. As a mathematician, Khayyam has made fundamental contributions to the Philosophy of mathematics especially in the context of Persian Mathematics and Persian philosophy with which, most of the other Persian scientists and philosophers such as Avicenna, Biruni, and Tusi are associated.
Khayyam taught for decades the philosophy of Avicenna, especially in his home town Nishapur, till his death. Khayyam, the philosopher can be understood from two rather distinct sources. One is through his Rubaiyat and the other through his own works in light of the intellectual and social conditions of his time. The latter could be informed by the evaluations of Khayyam’s works by scholars and philosophers such as Bayhaqi, Nezami Aruzi, and Zamakhshari and Sufi poets and writers Attar Nishapuri and Najmeddin Razi. As a mathematician, Khayyam has made fundamental contributions to the Philosophy of mathematics especially in the context of Persian Mathematics and Persian philosophy with which, most of the other Persian scientists and philosophers such as Avicenna, Biruni, and Tusi are associated.
Death:
Omer Khayyam passed away on December the 4th 1131 in Nishapur, Persia now known as Iran.
Thabit ibn Qurra (826 – 901)
Thabit ibn Qurra
Also known as Thebit. Arab mathematician, physician and astronomer; who was the first reformer of the Ptolemaic system and the founder of statics.
Al-Sabi Thabit ibn Qurra al-Harrani (836 –901) was a an astronomer and mathematician born in present day Turkey, best known for translating classic Greek works on astronomy, and discovered an equation for determining the amicable numbers. He was a Mandean physician, who was known as Thebit in Latin.
Early Life:
Thabit was a member of the Sabian religious sect. His heritage was sharp in traditions of Hellenistic culture and pagan veneration of the stars. This background, and in particular his knowledge of Greek and Arabic, made him an attractive prospect for enclosure in one particular community of scholars, the Banu Musa and their circle in Baghdad. Thabit seems to have been asked to join this circle by a family member, the mathematician Muhammad ibn Musa ibn Shakir, who recognized his talents and potential.
Thabit subsequently came to fame after traveling to Baghdad when he was invited by Muhammad bin Musa bin Shakir, one of the Banu Musa brothers. He worked in Baghdad and he occupied himself with mathematics, astronomy, mechanics, medicine and philosophy.
Contributions and Achievements:
Thabit is credited with dozens of treatises, covering a wide range of fields and topics. While some were written in his native Syriac, most were composed in Arabic. Thabit was trilingual, a skill that enabled him to play a key role in the translation movement of 9th century Baghdad. He translated works from both Syriac and Greek into Arabic, creating Arabic versions of important Hellenistic and Greek writings. Several of Thabit’s Arabic translations are the only extant versions of important ancient works.
The medieval astronomical theory of the trepidation of the equinoxes is often attributed to Thabit. He developed a theory about the trepidation and oscillation of the equinoctial points, of which many scholars debated in the Middle Ages.
According to Copernicus Thabit determined the length of the sidereal year as 365 days, 6 hours, 9 minutes and 12 seconds (an error of 2 seconds). Copernicus based his claim on the Latin text attributed to Thabit. Thabit published his observations of the Sun. In the fields of mechanics and physics he may be recognized as the founder of statics. He observed conditions of equilibrium of bodies, beams and levers. Thabit also wrote on philosophical and cosmological topics, questioning some of the fundamentals of the Aristotelian cosmos.
He rejected Aristotle’s concept of the essence as immobile, a position Rosenfeld and Gregorian suggest is in keeping with his anti Aristotelian stance of allowing the use of motion in mathematics. Thabit also wrote important treatises related to Archimedean problems in statics and mechanics. Besides all these contributions he also founded a school of translation and supervised the translation of a further large number of books from Greek to Arabic.
Among Thabit’s writings a large number have survived, while several are not present. Most of the books are on mathematics, followed by astronomy and medicine. The books have been written in Arabic but some are in Syriac. In the Middle Ages, some of his books were translated into Latin by Gherard of Cremona. In recent centuries, a number of his books have been translated into European languages and published. Thabit’s efforts provided a foundation for continuing work in the investigation and reformation of Ptolemaic astronomy. His life is illustrative of the fact that individuals from a wide range of backgrounds and religions contributed to the flourishing of sciences like astronomy in Islamic culture.
Death:
Thabit died in Baghdad. Thabit and his grandson Ibrahim ibn Sinan studied the curves which are needed for making of sundials that is commendable and is a great source of inspiration for the learners.
Abu Bakr Al-Razi (865 – 925)
Abu Bakr Al-Razi

Also known as Rhazes. Persian alchemist and philosopher, who was one of the greatest physicians in history.
Jabir Ibn Haiyan (722 – 804)
Jabir Ibn Haiyan

Also known as Geber. The father of Arab chemistry known for his highly influential works on alchemy and metallurgy.
Ibn Ishaq Al-Kindi (801 – 873)
Ibn Ishaq Al-Kindi

Also known as Alkindus. Arab philosopher and scientist, who is known as the first of the Muslim peripatetic philosophers.
Ibn Al-Haytham (965 – 1040)
Ibn Al-Haytham

Also known as Alhazen. Arab astronomer and mathematician known for his important contributions to the principles of optics and the use of scientific experiments.
Ibn Zuhr (1091 – 1161)
Ibn Zuhr

Also known as Avenzoar. Arab physician and surgeon, known for his influential book Al-Taisir Fil-Mudawat Wal-Tadbeer (Book of Simplification Concerning Therapeutics and Diet).
Ibn Khaldun (1332 – 1406)
Ibn Khaldun

Arab historiographer and historian who developed one of the earliest nonreligious philosophies of history. Often considered as one of the forerunners of modern historiography, sociology and economics.
Abd al-Rahman ibn Khaldun, the well known historian and thinker from Muslim 14th-century North Africa, is considered a forerunner of original theories in social sciences and philosophy of history, as well as the author of original views in economics, prefiguring modern contributions. In the following detailed and documented article, Muhammad Hozien outlines the bio-bibliography of Ibn Khaldun and presents insights into his theories, especially by comparing his analysis with that of Thucydides, and by characterizing Ibn Khaldun's view on science and philosophy.
Ibn Al-Baitar (1197 – 1248)
Ibn Al-Baitar

Arab scientist, botanist and physician who systematically recorded the discoveries made by Islamic physicians in the Middle Ages.
Abu Muhammad Abdallah Ibn Ahmad Ibn al-Baitar Dhiya al-Din al-Malaqi was one of the greatest scientists of Muslim Spain and was the greatest botanist and pharmacist of the Middle Ages. He was born in the Spanish city of Malaqa (Malaga) towards the end of the 12th century. He learned botany from Abu al-Abbas al-Nabati, a learned botanist, with whom he started collecting plants in and around Spain. In 1219 he left Spain on a plant-collecting expedition and travelled along the northern coast of Africa as far as Asia Minor. The exact modes of his travel (whether by land or sea) are not known, but the major stations he visited include Bugia, Qastantunia (Constantinople), Tunis, Tripoli, Barqa and Adalia. After 1224 he entered the service of al-Kamil, the Egyptian Gover- nor, and was appointed chief herbalist. In 1227 al-Kamil extended his domination to Damaseus, and Ibn al-Baitar accompanied him there which provided him an opportunity to collect plants in Syria His researches on plants extended over a vast area:including Arabia and Palestine, which he either visited or managed to collect plants from stations located there. He died in Damascus in 1248.
Ibn Baitar's major contribution, Kitab al-Jami fi al-Adwiya al- Mufrada, is one of the greatest botanical compilations dealing with medicinal plants in Arabic. It enjoyed a high status among botanists up to the 16th century and is a systematic work that embodies earlier works, with due criticism, and adds a great part of original contribution. The encyclopaedia comprises some 1,400 different items, largely medicinal plants and vegetables, of which about 200 plants were not known earlier. The book refers to the work of some 150 authors mostly Arabic, and it also quotes about 20 early Greek scientists. It was translated into Latin and published in 1758.
His second monumental treatise Kitab al-Mlughni fi al-Adwiya al-Mufrada is an encyclopaedia of medicine. The drugs are listed in accordance with their therapeutical value. Thus, its 20 different chapters deal with the plants bearing significance to diseases of head, ear, eye, etc. On surgical issues he has frequently quoted the famous Muslim surgeon, Abul Qasim Zahrawi. Besides Arabic, Baitar has given Greek and Latin names of the plants, thus facilitating transfer of knowledge.
Ibn Baitar's contributions are characterised by observation, analysis and classification and have exerted a profound influence on Eastern as well as Western botany and medicine. Though the Jami was translated/published late in the western languages as mentioned above, yet many scientists had earlier studied various parts of the book and made several references to it.